صحیفہ کاملہ

34۔ گناہوں کی رسوائی سے بچنے کی دعا

(۳۴) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

اِذَا ابْتُلِیَ اَوْ رَاٰى مُبْتَلًى بِفَضِیْحَةٍ بِذَنبٍ:

جب خود مبتلا ہوتے یا کسی کو گناہوں کی رسوائی میں مبتلا دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے:

اَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلٰى سِتْرِكَ بَعْدَ عِلْمِكَ، وَ مُعَافَاتِكَ بَعْدَ خُبْرِكَ، فَكُلُّنَا قَدِ اقْتَرَفَ الْعَآئِبَةَ فَلَمْ تَشْهَرْهُ، وَ ارْتَكَبَ الْفَاحِشَةَ فَلَمْ تَفْضَحْهُ، وَ تَسَتَّرَ بِالْمَسَاوِئِ فَلَمْ تَدْلُلْ عَلَیْهِ.

اے معبود! تیرے ہی لئے تمام تعریف ہے اس بات پر کہ تو نے (گناہوں کے) جاننے کے بعد پردہ پوشی کی، اور (حالات پر) اطلاع کے بعد عافیت و سلامتی بخشی، یوں تو ہم میں سے ہر ایک ہی عیوب و نقائص کے در پے ہوا مگر تو نے اسے مشتہر نہ کیا، اور افعال بد کا مرتکب ہوا مگر تو نے اس کو رسوا نہ ہونے دیا، اور پردۂ خفا میں برائیوں سے آلودہ رہا مگر تو نے اس کی نشان دہی نہ کی۔

كَمْ نَهْیٍ لَّكَ قَدْ اَتَیْنَاهُ، وَ اَمْرٍ قَدْ وَقَفْتَنَا عَلَیْهِ فَتَعَدَّیْنَاهُ، وَ سَیِّئَةٍ اكْتَسَبْنَاهَا، وَ خَطِیْٓئَةٍ ارْتَكَبْنَاهَا، كُنْتَ الْمُطَّلِعَ عَلَیْهَا دُوْنَ النَّاظِرِیْنَ، وَ الْقَادِرَ عَلٰۤى اِعْلَانِهَا فَوْقَ الْقَادِرِیْنَ، كَانَتْ عَافِیَتُكَ لَنا حِجَابًا دُوْنَ اَبْصَارِهِمْ، وَ رَدْمًا دُوْنَ اَسْمَاعِهِمْ.

کتنے ہی تیرے منہیات تھے جن کے ہم مرتکب ہوئے، اور کتنے ہی تیرے احکام تھے جن پر تو نے کاربند رہنے کا حکم دیا تھا مگر ہم نے ان سے تجاوز کیا، اور کتنی ہی برائیاں تھیں جو ہم سے سر زد ہوئیں، اور کتنی ہی خطائیں تھیں جن کا ہم نے ارتکاب کیا، درآنحالیکہ دوسرے دیکھنے والوں کے بجائے تو ان پر آگاہ تھا، اور دوسرے (گناہوں کی تشہیرپر) قدرت رکھنے والوں سے تو زیادہ ان کے افشا پر قادر تھا، مگر اس کے باوجود ہمارے بارے میں تیری حفاظت و نگہداشت ان کی آنکھوں کے سامنے پردہ، اور ان کے کانوں کے بالمقابل دیوار بن گئی۔

فَاجْعَلْ مَا سَتَرْتَ مِنَ الْعَوْرَةِ، وَ اَخْفَیْتَ مِنَ الدَّخِیْلَةِ، وَاعِظًا لَنا، وَ زَاجِرًا عَنْ سُوْٓءِ الْخُلُقِ، وَ اقْتِرَافِ الْخَطِیْٓـئَةِ، وَ سَعْیًاۤ اِلَى التَّوْبَةِ الْمَاحِیَةِ، وَ الطَّرِیْقِ الْمَحْمُوْدَةِ، وَ قَرِّبِ الْوَقْتَ فِیْهِ، وَ لَا تَسُمْنَا الْغَفْلَةَ عَنْكَ، اِنَّاۤ اِلَیْكَ رَاغِبُوْنَ، وَ مِنَ الذُّنُوْبِ تَآئِبُوْنَ.

تو پھر اس پردہ داری و عیب پوشی کو ہمارے لئے ایک نصیحت کرنے والا، اور بدخوئی و ارتکاب گناہ سے روکنے والا، اور (گناہوں کو) مٹانے والی راہِ توبہ، اور طریق پسندیدہ پر گامزنی کا وسیلہ قرار دے، اور اس راہ پیمائی کے لمحے (ہم سے) قریب کر، اور ہمارے لئے ایسے اسباب مہیا نہ کر جو تجھ سے ہمیں غافل کر دیں۔ اس لئے کہ ہم تیری طرف رجوع ہونے والے اور گناہوں سے توبہ کرنے والے ہیں۔

وَ صَلِّ عَلٰى خِیَرَتِكَ اللّٰهُمَّ مِنْ خَلْقِكَ: مُحَمَّدٍ وَّ عِتْرَتِهِ الصِّفْوَةِ مِن بَرِیَّتِكَ الطَّاهِرِیْنَ، وَ اجْعَلْنَا لَهُمْ سَامِعِیْنَ وَ مُطِیْعِیْنَ كَمَاۤ اَمَرْتَ.

بارالٰہا! محمدﷺ پر جو مخلوقات میں تیرے برگزیدہ اور ان کی پاکیزہ عترتؑ پر جو کائنات میں تیری منتخب کردہ ہے رحمت نازل فرما اور ہمیں اپنے فرمان کے مطابق ان کی بات پر کان دھرنے والا اور ان کے احکام کی تعمیل کرنے والا قرار دے۔

–٭٭–

یہ دُعا خداوند عالم کی صفتِ پردہ پوشی کے سلسلہ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شان ستاریت ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ بندوں کے عیوب پر پردہ پڑا رہتا ہے۔ کیونکہ وہ یہ گوارا نہیں کرتا کہ اس کے بندے ہم چشموں کی نگاہوں میں سبک ہوں اور اپنے چھپے ہوئے عیبوں کی وجہ سے ذلیل ہوں۔ اس لئے وہ معائب پر پردہ ڈالتا ہے اور کسی کا عیب آشکار نہیں کرتا۔ حالانکہ وہ جب چاہے گنہگاروں کے راز ہائے درون پردہ کو بے نقاب کرکے انہیں رسوا و ذلیل کر سکتا ہے اور ان کی بداعمالیوں کا تقاضا بھی یہ ہوتا ہے کہ انہیں ذلت و رسوائی سے دوچار کیا جائے، مگر اس کی شان ستاریت آڑے آ جاتی ہے اور انہیں رسوائیوں سے بچالے جاتی ہے۔ اگر ان کی طرف سے پردہ پوشی نہ ہوتی تو پھر کون ایسا ہے جو اپنی کارستانیوں کی بدولت رسوا و ذلیل نہ ہوتا۔

گر پرده ز روی کار ما بر دارند

آن کيست که رسوای دو عالم نشود

چنانچہ جو شخص بھی اپنی باطنی حالت کا جائزہ لے گا وہ اس امر کے اعتراف پر مجبور ہو گا کہ اس کے وہ عیوب جو اِفشا ہوئے ہیں عموماً ایسے ہی تھے کہ جن کے چھپانے کی اس نے کبھی فکر کی ہی نہ تھی، مگر اس کے باوجود اس کے ڈھکے چھپے ہوئے گناہ ان گناہوں سے کہیں زیادہ ہوں گے جو ظاہر ہوئے ہیں۔ یہ اس کی صفت پردہ پوشی ہی کا تو کرشمہ ہے کہ باوجود افشائے عیوب و معاصی کے اسباب مہیا کرنے کے وہ پردہ چاک نہیں کرتا اور دوسروں کو اس کے معائب پر مطلع نہیں ہونے دیتا۔ اسی پردہ پوشی کی بنا پر اس نے زنا کے ثبوت کیلئے چار عینی گواہوں کی کڑی شرط لگا دی ہے، تا کہ گنہگار کے گناہ پر پردہ پڑا رہے اور دوسروں کے عیوب اچھالنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَۃُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۰ۙ﴾

جو لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کی برائیاں نشر ہوں ان کیلئے درد ناک عذاب ہے۔[۱]

خداوند عالم کی یہ پردہ پوشی صرف دنیا ہی میں نہیں ہے، بلکہ آخرت میں بھی وہ پردہ داری سے کام لے گا۔ چنانچہ وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ موقف حساب میں عرض کریں گے کہ: اے میرےمعبود! میری امت کا حساب و کتاب انبیاء علیہ السلام اور دوسری امتوں کے سامنے نہ لیا جائے تا کہ میری امت کے گناہوں اور لغزشوں پر کوئی مطلع نہ ہو۔ لہٰذا میری امت کا محاسبہ صرف میرے سامنے ہو۔ اس موقع پر قدرت کی طرف سے ارشاد ہو گا کہ: ’’اے محمد (ﷺ)! میں اپنے بندوں پر تم سے زیادہ رحیم و مہربان ہوں۔ جب تمہیں یہ گوارا نہیں کہ تمہاری امت کے گناہ و معائب کسی اور پر ظاہر ہوں تو میں بھی یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ میں اپنے بندوں کو تمہارے سامنے نادم و رسوا کروں، لہٰذا میں جانوں اور ان کا حساب و کتاب‘‘۔[۲]

بہرحال اس دنیا میں پردہ پوشی کا نفسیاتی طور پر یہ اثر ہوتا ہے کہ بندہ اس کی مرحمت و عیب پوشی کو دیکھتے ہوئے خود اپنے مقام پر شرمندہ ہوتا ہے اور یہ شرمندگی اسے جھنجھوڑتی اور توبہ کی راہ دکھاتی ہے اور وہ جذبہ ممنونیت سے متاثر ہو کر گناہوں سے دستبردار ہونے کا ارادہ کر لیتا ہے۔ اور جس کا پردہ خود اپنے ہاتھوں چاک ہو جاتا ہے اور زبانوں پر اس کے معائب کا چرچا ہونے لگتا ہے تو دوسرے لوگ اگرچہ ویسے ہی گناہوں کے مرتکب ہوتے ہوں یا ہوتے رہے ہوں اس پر زبان طعن کھولتے اور اسے مورد الزام ٹھہراتے ہیں جس کے نتیجے میں اس کے دل میں نفرت بھر جاتی ہے اور یہ جوش نفرت ضد اور ہٹ دھرمی کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور وہ مزید رسوائی کی پروا کئے بغیر گناہوں میں جری و بے باک ہو جاتا ہے اور جو شرم کی ہلکی سی نقاب اس کے چہرے پر ہوتی ہے، اتر جاتی ہے اور علانیہ گناہوں کا مرتکب ہونے لگتا ہے۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ سورۂ نور، آیت ۱۹

[۲]۔ نہج الفصاحۃ ص ۵۱۷، کنزالعمال، ج ۱۴، ص ۳۸۹۷۲

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button